انسان ازل ہی سے فطرت کے قریب رہا ہے اور سرسبزمقامات اورجنگلاتی دریائی وادیوں میں ہمارے آباؤ اجداد زندگی کے ماہ و سال گزرتے رہے ہیں۔
اس کے مقابلے میں، شہر ایک نئے اور الگ قسم کی رہائش گاہ کی نمائندگی کرتا ہے، اس بات سے قطع نظر کے شہر میں رہائش کے بہت سے فائدے ہیں تاہم یہ اکثر ہماری ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ حالیہ تحقیق نے شہری ماحول کو بے چینی، ڈپریشن اور دیگر دماغی صحت کے مسائل بشمول شیزوفرینیا کے بڑھتے ہوئے خطرات سے منسلک کردیا ہے۔
تاہم اچھی خبر یہ ہے کہ تحقیق اس مسئلے کا ایک حل بھی پیش کرتی ہے، اور وہ ہے کسی سرسبز پرفضا مقام کی سیر۔ یہاں تک کہ یہ سیر انتہائی مختصر ہی کیوں نہ ہو۔
اس طرح کی سیر دماغی اور جسمانی صحت کے لیے بے حد افادیت رکھتی ہے جس میں بلڈ پریشر کا توازن میں رہنا، کم اضطراب اور افسردگی، بہترمزاج، ارتکاز میں اضافہ، پرسکون نیند، بہتر یادداشت، اور تیزی سے شفا یابی شامل ہے۔
متعدد مطالعات اس بات کی حمایت کرتے ہیں، تاہم کیا واقعی جنگل یا سرسبز وادیوں میں چلنا دماغ میں ان تمام فائدہ مند تبدیلیوں کو جنم دے سکتا ہے؟ اور اگر ہے تو کیسے؟
اگر اس کا سراغ تلاش کیا جائے تودماغ کے مرکز میں موجود ایمی گڈالا جوکہ ایک بادام کی شکل کا ڈھانچہ ہے جو تناؤ، جذبات، خوف اور یاداشت کے بہت سے پہلوؤں میں بطور ثالث اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
تحقیق کے مطابق گاؤں اور دیہات میں رہنے والوں کی نسبت ایمی گڈالا شہرمیں رہنے والوں میں تناؤ کے دوران کم متحرک ہوتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ایک تحقیق کی گئی۔ یہ تحقیق میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن ڈویلپمنٹ کے محققین نے فنکشنل میگنیٹک ریزوننس امیجنگ کی مدد سے کی گئی۔
اس تحقیق میں 63 صحت مند بالغ رضاکاروں کو شامل کیا گیا، محققین نے شرکاء کو سوالنامے پُر کرنے، یادداشت کا کام کرنے، اور سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ان کا ایف ایم آر آئی اسکین کیا گیا، جن میں سے کچھ کو سماجی تناؤ پیدا کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ شرکاء کو بتایا گیا کہ مطالعہ میں ایم آر آئی اور چہل قدمی شامل ہے، لیکن وہ تحقیق کا مقصد نہیں جانتے تھے۔
اس کے بعد شرکاء کو تحقیق کے مقصد کے تحت شہری ماحول (برلن میں ایک مصروف شاپنگ ڈسٹرکٹ) یا قدرتی (برلن کے 3,000 ہیکٹر گرونوالڈ جنگل) میں ایک گھنٹہ پیدل چلنے کے لیے کہا گیا۔
محققین نے شرکاء کو کہا کہ وہ کسی بھی جگہ ایک مخصوص راستے پرتنہا بغیر موبائل فون کے چلیں، ان کے چلنے کے بعد، ہر شریک کا ایک اضافی تناؤ پیدا کرنے والے کام کے ساتھ، اور دوسرا سوالنامہ پُرکر کے ایک اور ایف ایم آر آئی اسکین لیا گیا۔
ایف ایم آر آئی اسکینز نے جنگل میں چہل قدمی کے بعد امیگڈالا میں سرگرمی میں کمی کو ظاہر کیا، محققین کی رپورٹ، جو اس خیال کی تائید کرتی ہے کہ فطرت تناؤ میں شامل دماغی علاقوں میں فائدہ مند اثرات کو متحرک کرسکتی ہے۔ اور بظاہر یہ صرف 60 منٹ میں ہو سکتا ہے۔
میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن میں لیز میٹنر گروپ برائے ماحولیاتی نیورو سائنس کے سربراہ ماحولیاتی نیورو سائنسدان سیمون کوہن کا کہنا ہے کہ ’’نتائج فطرت اور دماغی صحت کے درمیان پہلے سے فرض کیے گئے مثبت تعلق کی تائید کرتے ہیں، لیکن یہ پہلا مطالعہ ہے جس کا سبب ربط ثابت ہوتا ہے۔‘‘
جن شرکاء نے جنگل میں چہل قدمی کی انہوں نے بھی شہری سیر کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ توجہ مرکوزکرنے کی صلاحیت میں اضافہ اور واک سے زیادہ لطف اندوز ہونے کی اطلاع دی، جو کہ مطالعہ کے ایف ایم آر آئی کے نتائج کے ساتھ ساتھ سابقہ تحقیق سے مطابقت رکھتی ہے۔
تاہم اس تحقیق کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایسے شرکاء جنہوں نے شہری ماحول میں چہل قدمی کی۔ اگرچہ ان کی امیگڈالا سرگرمی میں ان لوگوں کی طرح کم نہیں ہوئی جنہوں نے فطرت سے قریب ماحول کی سیر کی تھی، لیکن اس میں اضافہ بھی نہیں ہوا۔
محققین لکھتے ہیں، کہ’’یہ شہری نمائش کے برعکس فطرت کے سالوٹوجینک اثرات کے حق میں دلیل دیتا ہے جو اضافی تناؤ کا باعث بنتے ہیں۔‘‘