اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کے خلاف نیب کی جانب سے بنایا گیا نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس ریفرنس خارج کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں نارووال اسپورٹس سٹی ریفرنس میں احسن اقبال کی بریت کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کرتے ہوئے نیب سے استفسارکیا کہ آپ سے پوچھا تھا بتائیں اس کیس میں کرپشن کیا ہے؟
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل آج دستیاب نہیں وہ دلائل دیں گے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ نہیں آپ کو التوا نہیں ملے گا۔ نامعلوم اخبار پتہ نہیں کہاں سے اٹھا کر اس وقت کے چئیرمین نیب نے کارروائی کی۔ یہ منصوبہ سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کی منظوری سے بنا۔
عدالت نے کہا کہ اس کیس کے تفتشیی کو پتہ بھی نہیں تھا سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کیا ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہم اس کیس کو ترمیمی آرڈیننس کے تحت دیکھ رہے ہیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ترمیمی آرڈیننس کا تو اس میں تعلق ہی نہیں۔
نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ یہ منصوبہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ تھا۔ وہاں سے یہ منصوبہ بین الصوبائی رابطہ وزارت کو دے دیا گیا۔
عدالت نے کہا کہ توکیا احسن اقبال بین الصوبائی رابطہ کے وزیر تھے؟ جس پرنیب نے جواب دیا کہ احسن اقبال وزیر منصوبہ بندی تھے،
چیف جسٹس نے نیب سے مکالمے میں کہا کہ تو پھراحسن اقبال کے پاس کون سا اختیار تھا جس کا غلط استعمال ہوا؟ یہ آپ کا کام نہیں کس منصوبے سے متعلق پالیسی کیا ہو۔ نارروال چھوٹا شہر ہے یا بڑا وہاں کتنا منصوبہ بننا یہ دیکھنا آپ کا کام نہیں۔ آپ کو کوئی اتا پتہ ہی نہیں حکومت چلتی کیسے ہے۔ آپ نے کس اخبارکی خبر پر یہ کیس بنایا تھا؟
نیب نے جواب دیا کہ میٹرو واچ کی خبر پر یہ کیس بنایا گیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ تو یہ میٹرو واچ کہاں کا اخبار ہے اور کیا لکھا تھا اس کوپڑھیں۔
پراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا کہ اجازت دیں جو ابھی قانون ہے اس کے مطابق ہم کیس کو دیکھیں۔
عدالت نے کہا کہ آپ ابھی کے قانون کو چھوڑ دیں ہم نے پہلے والے قانون کی بھی تشریح کی تھی۔ کیا چئیرمین نیب نے تصدیق کی تھی جو کچھ لکھا ہے وہ درست ہے یا نہیں۔ کیا صرف اس خبر کی بنیاد پر کرپشن کا کیس بنا دیا گیا؟
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سی ڈی ڈبلیو پی میں تیس لوگ تھے کیا ان سب نے کرپشن کی؟ نہ آپ کو ڈی ڈی ڈبلیو پی نہ ہی پی ایس ڈی پی کا پتہ ہے۔ نیب نے خود لکھا پہلا نقصان منصوبے کو التوا میں رکھنے سے ہوا۔ آپ اُن کو پکڑتے نا جنہوں نے 2009تک منصوبے کو روکا۔
عدالت نے کہا کہ تفتیسی صاحب آپ کو بہت زیادہ تربیت کی ضرور ت ہے۔ آپ لوگوں کی ساکھ کے ساتھ اس طرح کھیلتے ہیں۔ آپ سے کوئی 15 بار پوچھ چھکے ہیں کرپشن کا بتائیں۔ وفاقی حکومت آج بھی کئی منصوبے صوبوں میں لگا رہی ہے۔ کیا اب نیب انہیں بھی پکڑ لے گا؟
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ایک میٹرو واچ کی خبر پر آپ نے پراجیکٹ ہی رکوا دیا؟ کہا گیا جی انڈیا کی بارڈر سے تھوڑا ہی دور منصوبہ بنا ہے۔ کیا آپ کو بھیجتے کہ دیکھیں بارڈر سے کتنا دور ہے؟ اگر بارڈر کے قریب بھی تھا تو اس میں کرپشن کیا تھی؟ میٹرو واچ کی خبر پر جب کیس شروع ہوا تو 2009والے صاحب کو کیوں نہ پکڑا؟
عدالت نے ریمارکس دیے کہ دوہزار نو میں جنہوں نے دوبارہ منصوبہ شروع کیا انہیں پکڑتے نا۔ دوہزار نو میں تو احسن اقبال پبلک آفس ہولڈر نہیں تھے۔ کیا آپ نے پنجاب حکومت سے تفتیش کی کہ آپ کا منصوبہ وفاق کیسے لے گیا۔
نیب تفتیشی نے جواب دیا کہ سیکریٹری پردباؤ ڈال کر منصوبہ بین الصوبائی رابطہ کو دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری کوئی بچے ہوتے ہیں جن پر دباو ڈالا جا سکے؟ تفتیشی صاحب کیا آپ پر کوئی دباو ڈال سکتا ہے؟
نیب کے تفتیشی نے جواب دیا کہ نہیں سر مجھ پر کوئی دباو نہیں ڈال سکتا۔
عدالت نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں آپ پر کوئی دباو نہیں ڈال سکتا مگر سیکرٹری پر ڈال سکتا ہے۔ اگر غلط ہوا تو سی ڈی ڈبلیو پی ہے سب تیس لوگوں کو پکڑتے۔ چئیرمین صاحب نے میٹرو کو دیکھ کر کیس بنا دیا آپ کو سی ڈی ڈبلیو پی کا پتہ نہیں۔
نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ نئے آرڈیننس کے تحت اس کو دیکھ لیتے ہیں جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت کسی نئے آرڈیننس میں نہیں جا رہی۔